Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر7

ایمان کارڈ لے تو آئی تھی مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے...
اس نے جا نماز بچھائی اور دعا کرنے لگی اے مرے مالک تو سب خیر کر... مجھے ٹھیک راستہ دکھا دے...
 تو میرے لیے بہتر فیصلہ کر...
اس نے موبائل کو بالکل ہاتھ نہیں لگایا تھا...
شام ڈھل رہی تھی، ادھر فیصل بھی اس کے ریپلائی کا کب سے انتظار کر رہا تھا...
آج وہ پہلے کی طرح شام کے بعد بھی ہوٹل میں ہی موجود تھا...اس کی نظریں کب سے فون کی سکرین پر جمی تھیں جہاں آرزو کے ایک دو میسجز کے سوا کچھ نہ تھا...اس نے آرزو کے میسج کا ایک دفعہ پھر سرسری سا ریپلائی دے دیا...وہاں آرزو بھی فیصل کی اس بے رخی پر حیران تھی...وہ جاننا چاہتی تھی کہ فیصل اس کے ساتھ ایسے کیوں پیش آ رہا ہے... غرض اب یہ آگ تین لوگوں کے سینے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔آرزو فیصل کے لیے، جبکہ فیصل ایمان کے لیے بے تاب تھا۔۔۔اور ایمان اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ وہ اس نئے شخص کی جانب کیوں کھنچی چلی جا رہی ہے۔۔۔شام سے رات ہو گئی فیصل بھی گھر واپس چل دیا اور ایمان بھی سونے کی غرض سے اپنے کمرے میں چل دی۔۔۔اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے دیے گئے نمبر پر میسج کرے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ کارڈ بیگ سے نکالا اور نمبر بغور پڑھ کر دوبارہ واپس رکھ دیا۔۔۔کچھ دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں جا پہنچی۔۔۔
میسج نہ آنے پر فیصل بھی کافی اداس دکھائی دے رہا تھا۔۔۔
لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔جانے کب تک وہ یونہی بے وجہ جاگتا رہا۔۔۔
___________________________
ایمان صبح فجر کے الارم پر اٹھی اور الارم بند کرنے کے لیے موبائل اٹھایا۔۔۔لیکن الارم بند کرتے ساتھ ہی اس نے دیکھا کسی ان ناؤن نمبر سے میسجز آئے ہوئے تھے۔۔۔اس نے اوپن کیے تو لکھا تھا۔۔۔
مجھے یقین تھا کہ آپکا میسج ضرور آئے گا۔۔۔میرا نام فیصل ہے۔۔۔
 آپ پہلی نظر میں ہی میرے دل کو بھا گئیں۔۔۔آپ کا وہ نظریں جھکا کر گزر جانا مجھے بے حد اچھا لگا۔۔۔
ایمان کو یہ سب پڑھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔۔۔اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔
آخر میرا نمبر کیسے ملا اس کو۔۔۔اس نے اپنا سینٹ بکس چیک کیا تو اس کے نمبر پر "جی" کا میسج بھیجا گیا تھا۔۔۔
خیر وہ جیسے کیسے کالج پہنچی تو زارا نے اس کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ پریشان ہے۔۔۔اس نے پوچھا تو کچھ دیر ایمان آئیں بائیں شائیں کرتی رہی لیکن آخر کار ساری بات اس کے گوش گزار کر دی۔۔۔
زارا کو بھی زیادہ حیرت اسی بات پر تھی کہ اس فیصل نامی لڑکے کے پاس نمبر کیسے گیا جب ایمان نے میسج نہیں کیا۔۔۔ان دونوں نے سوچا یقیناً نور نے کیا ہو گا۔۔ لیکن اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔سب ٹھیک ہو گا۔۔۔تم ٹینشن نہ لو۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ہو سکتا ہے اسی کے زریعے تمہاری قسمت بدل جائے اور عمیر سے جان چھوٹ جائے۔۔۔
ایمان نے یہ سن کر فوراً زارا کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہی ہو اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔۔۔
لیکن پھر وہ بولی۔۔۔زارا اگر ایسا نہ ہوا تو۔۔۔تم میرا یقین کرو۔۔۔وہ یقیناً اچھا لڑکا ہو گا۔۔۔ایک بار بات تو کر کے دیکھو۔۔۔
ایمان یقین اور بے یقینی کی درمیانی کیفیت سے دو چار تھی۔۔۔
___________________________
دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔
اماں صدیقہ نے دروازہ کھولا تو باہر فیصل موجود تھا۔۔۔
السلام علیکم اماں جان۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔آؤ بیٹا۔۔۔آ جاؤ۔۔۔
وہ اسے اندر لے گئیں۔۔۔
کچھ لمحوں بعد فیصل گویا ہوا۔۔۔
اماں مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔
پوچھو بیٹا۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں جیسے وہ اسی انتظار میں تھیں۔۔۔
میں کل سے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں۔۔۔لیکن۔۔۔کسی نے بھی مجھ سے یہ نہیں کہا کہ تم خوش لگ رہے ہو۔۔۔اور آپ جو مجھے جانتی بھی نہیں ہیں آپ کو یہ کیسے پتہ چل گیا کہ میں کسی بات پر خوش ہوں۔۔۔
اس کی بات سن کر اماں کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔۔۔دل ہی دل میں سوچا۔۔۔مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے تمہیں میرے بچے۔۔۔
خیر جواباً وہ بولیں۔۔۔میں تو یہ بھی جانتی ہوں کہ کل کی نسبت تم آج زیادہ خوش ہو۔۔۔اور رات کو تم سوئے بھی نہیں ہو۔۔۔یہ سن کر فیصل کو مزید حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔اماں۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے۔۔۔مجھے بھی وہ طریقہ بتائیں۔۔۔آپ کیا پڑھتی ہیں۔۔۔کیا کوئی منتر وظیفہ ہے؟ 
اماں اس کی بے چینی دیکھ کر ہنس پڑیں۔۔۔
بیٹھو بیٹا۔۔۔وہ جو اماں کے پچھلے جواب پر اچھل کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔
دوبارہ بیٹھ گیا۔۔۔
میرے بچے۔۔۔اللہ نے تمہیں چن لیا ہے۔۔۔
فیصل کو یہ جملہ سن کر زمین پیروں کے نیچے سے نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔
زمانے بھر کی حیرت آنکھوں میں بھر کر اس نے اماں کو دیکھا۔۔۔
اماں سمجھ گئیں کہ اسے یہ بات عجیب لگی۔۔۔وہ دوبارہ گویا ہوئیں۔۔۔
وہ اپنے خاص بندوں کے دل میں یہ سچے جذبے ڈالتا ہے۔۔۔ان میں سے ایک تم بھی ہو۔۔۔تم جس بات کو کچھ دن سے اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہو۔۔۔مجھے سب علم ہے۔۔۔میرے بچے۔۔۔ہمیشہ سچ بولنا اور سچائی کا ساتھ دینا۔۔۔خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔
ابھی فیصل ایمان کے خیالات سے پوری طرح باہر نہیں نکل پا رہا تھا کہ اماں خیر النساء اس کے لیے ایک نیا معہ بن کر رہ گئی تھیں۔۔۔وہ ان کی دور اندیشی سے بہت متاثر ہوا تھا۔۔۔
___________________________
چھٹی کے بعد گھر آتے ہی ایمان نور کے پاس جا پہنچی۔۔۔تم نے اسے میسج کیا تھا رات کو میرے فون سے؟ اس کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔۔۔
نور سے کچھ جواب نہ بن پایا۔۔۔
یہ تم نے کیا کیا نور۔۔۔ وہ روہانسی ہو کر بولی۔۔۔
آپ فکر نہ کریں۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔آپ تو یونہی پریشان ہو رہی ہیں۔۔۔دیکھیں آج تو وہ چھٹی کے وقت وہاں موجود بھی نہیں تھا۔۔۔ اچھا۔۔۔کیا ریپلائے آیا تھا اس کا بتائیں تو۔۔
اففف خدایا۔۔۔چپ ہو جاؤ۔۔۔ایمان سر پیٹ کر رہ گئی۔۔۔
اس نے فون چیک کیا تو فیصل کا میسج آیا ہوا تھا۔۔۔
"فری ہو کر بات سنیے گا پلیز"۔۔۔
اس نے فون رکھ دیا۔۔۔اور شام تک کوئی ریپلائے نہ کیا۔۔۔
پھر شام میں اس کا دوبارہ میسج آیا۔۔۔میں جانتا ہوں آپ ریپلائے کرنا چاہتی ہیں مگر ہچکچاہٹ کی وجہ سے نہیں کر رہیں۔۔۔ایمان نے بے اختیار جواب دے دیا۔۔۔آپ کو کیسے پتہ۔۔۔جب میسج چلا گیا تو ایمان کو لگا اس نے غلطی کر دی ہے جواب دے کر۔۔۔مگر میسج جا چکا تھا۔۔۔
فیصل نے فوراً جواب دیا۔۔۔میرے دل کی آواز ہے۔۔۔میں جانتا ہوں میرا دل سچ کہہ رہا ہے۔۔۔آپ خود بتایے ایسا ہی ہے نا۔۔۔
ہاں۔۔۔ایمان نے مختصراً جواب دیا۔۔۔ایمان اس بات پر بھی حیران تھی کہ فیصل کو اتنا یقین کیسے تھا ریپلائے کا۔۔۔
"اس دن پہلی بار آپ کو دیکھا تو۔۔۔آپ مجھے اچھی لگیں۔۔۔یوں کہہ لیں کہ لو ایٹ فرسٹ سائیٹ۔۔۔"
اس بار فیصل کا وائس نوٹ آیا تھا۔۔۔
یہ سب سن کر ایمان کے اندر ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔

   1
0 Comments